راز دل پابندیوں میں بھی پیار ہو جاےگا
رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
میرا ہر فقرہ مُکمل داستاں ہو جائے گا
دِھیرے دِھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا
ہم نے حاصل کرنا چاہا تھا خلُوصِ جاوداں
کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگُماں ہو جائے گا
فِطرتِ اِنساں میں ہونا چاہیے ذوقِ عمل
خاک کے ہر ذرّے سے پیدا جہاں ہو جائے گا
کر دیا تبدیل ہم نے اپنا اندازِ سفر
اب تو رہزن بھی شریکِ کارواں ہو جائے گا
شکیب جلالی